Sad Shayari
گلہ بنتا ہی نہیں بےرخی کا
دل ہی تو تھا بھر گیا ہوگا.
میرے عزیز کبھی مُجھ سے خُوش نہیں ہوتے
تُمہیں بھی میری مُحبت سے مسئلہ ہی رھے گا
شکوہ
بڑی گستاخ ہے تیری یاد اسے تمیز سکہا دو...
دستک بہی نہیں دیتی اور دل میں اتر آتی ہے...
جواب شکوہ
ارے کیوں لگاتے ہو میری یاد پہ الزام.
اپنا ہی گہر ہو تو کون پوچھ کے آتا ہے
میں سیاہ رنگ کا شیدائی
اپنی ساری خوشیاں سیاہ کر بیٹھا
چل آ اک ایسی " نظم "کہوں
جو"لفظ"کہوں وہ ہو جائے،،
میں" آ " لکھوں تُو آ جائے
میں"بیٹھ"لکھوں تُو آ بیٹھے،،
میرے"شانے"پر سر رکھے تُو
میں"نیند"کہوں تُو سو جائے،،
میں کاغذ پر تیرے"ہونٹ"لکھوں
تیرے" ہونٹوں" پر مسکان آئے،،،
میں" دل " لکھوں تُو دل تھامے
میں" گم " لکھوں تُو کھو جائے،،
تیرے" ہاتھ " بناوں پنسل سے
پھر" ہاتھ " پہ تیرے ہاتھ رکھوں،
کچھ" الٹا سیدھا" فرض کروں
کچھ" سیدھا الٹا " ہو جائے،،،
میں " آہ " لکھوں تُو ہائے کرے
بےچین لکھوں"بےچین" ہو تُو،
پھر میں بےچین کا" ب" کاٹوں
تُجھے " چین" زرا سا ہو جائے،،
ابھی"ع" لکھوں تُو سوچے مجھے
پھر "ش"لکھوں تیری نیند اُڑے،
جب"ق" لکھوں تُجھے کچھ کچھ ہو
میں"عشق" لکھوں تُجھے ہو جائے
یوں چپ بیٹھ کے ہم کو ستایا نہ کیجیے۔
ہم محفلوں میں خوش ہے رولایا نہ کیجیے۔
نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے
خدا کے واسطے دیکھو نہ مُسکرا کے مجھے
اے میرے ہمنشیں چل کہیں اور چل
اس چمن میں ہما را گزارا نہیں ہیں
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں
یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا
کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا
ان چیخ و پکار سے وحشت ہے مجھے.
اگر میں مرجاؤں تو ہنستے رہنا
یہ میرا عین جوانی میں پارسا ہونا
فقط توہین ہے، جوانی کی
کسی کی گود میسر نھیں ہے رونے کو
مزا تب اور بھی آتا آنکھیں بھگونے کو
میں خود کو نہیں میسر
اور تم ترستے ہو میرے لیے؟
میں بھی اپنے آخری لیکچر میں افسردہ رہا
ڈیسک پر سر رکھ کے وہ بھی دیر تک روتی رہی
ہم دیوانوں کی طرح بےوجہ ہنسا کرتے تھے
ہاتھ میں ہاتھ دیے رہ میں چلا کرتے تھے
میری چاہت میں کچھ لوگ سجا کرتے تھے
سج کے سینے سے میرے روز لگا کرتے تھے
دیکھ کے جن کو اب آنکھوں جلنے لگتی ہیں
جانے والے انہی پلکوں پہ رہا کرتے تھے
اب ترے نام پہ جل جاتے ہیں چل دیتے ہیں
ہم تیرا دل پر کبھی نام لکھا کرتے تھے
جس کی حسرت میں دل جلتا ہے شام و سحر
دل کی اس آگ میں وہ بھی تو جلا کرتے تھے
یہ جو آفتاب کوئی اجنبی سا گزرا ہے
اس کی بانہوں میں کبھی ہم بھی جیا کرتے تھے
جو کتابِ عشق کا باب تھا وہ جلا دیا تو بھلا دیا
وہ جو سات رنگا گلاب تھا وہ ہٹا دیا تو بھلا دیا
مجھے یاد تھا جو کتاب سا جو زبر سے زیر کا پیش تھا
جو سیاق سے تھا سباق تک وہ مٹا دیا تو بھلا دیا
جسے پڑھتے پڑھتے الجھ گئی مری زندگی بھی حساب سی
جو سوال سے تھا جواب تک وہ بتا دیا تو بھلا دیا
جو چھپا تھا میرے وجود میں مرے ہاتھ میں مرے ساتھ میں
جو عروج سے تھا زوال تک جو گھٹا دیا تو بھلا دیا
جو دیا تھا میرے خیال کا جو تھا چاند میرے سرور کا
وہ جو روشنی کا دیا سا تھا جو بجھا دیا تو بھلا دیا
جو نوائے دل کا مقام تھا جو صدائے دل سے تھا آشنا
جو خطا بھی تھا جو عطا بھی تھا وہ سلا دیا تو بھلا دیا
جسے مان تھا کہ مرا ہے وہ جو یہ کہتا تھا کہ ترا ہوں میں
جو غرور سے تھا بھرا ہوا وہ گنوا دیا تو بھلا دیا
وہ جو اجنبی سی منڈیر پر مجھے ملنے آتا تھا دور سے
جو یقین سے تھا بھرا ہوا وہ رلا دیا تو بھلا دیا
جو مثال تھا کسی حور کی جو کمالِ خال میں روپ تھا
جو کمال سے تھا جمال تک وہ جلا دیا تو بھلا دیا
قید میں رسموں کی جکڑے ہیں دیوانے کیسے
بند ہیں خواب کواڑوں میں بیگانے کیسے
دل یہ کہتا ہے تیرے ساتھ ہی چلتا جاؤں
وصل کے آتے ہیں مجھے یاد زمانے کیسے
ہجر میں کون تجھے پہلی سی محبت بانٹے
جائے گا دل یہ بھلا تجھ کو منانے کیسے
زہر میں ڈوبے ہوئے لہجوں کے نشیمن میں
لوگ ہیں بیٹھے میرے ساتھ نہ جانے کیسے
پڑھنے والوں سے یہ کیسے پڑھے جائیں گے
لکھنے والے نے لکھے ہیں یہ فسانے کیسے
اپنے اشکوں سے تیری یاد پہ ہم رقصاں ہیں
اشک سے نکھرے ہیں کچھ خواب پرانے کیسے
کہتی ہے آنکھ پتہ لے تُو دلِ ناداں کا
دل یہ کہتا ہے سنا دوں میں ترانے کیسے
عشق میں مجنوں ہے کوئی تو کوئی لیلٰی ہے
ملتے ہیں عشق میں میری جان خزانے کیسے
ملنے کی بات پہ میری جان دغا دیتے ہو
پیار تو پیار ہے پھر اس میں یہ بہانے کیسے
کوئی حد ہی نہیں ہے عاجزی کی
کئی دن سے مسلسل جھک رہا ہوں
اک بہانہ ہے مرے پاس ابھی جینے کا
ایک تصویر موبائل میں پڑی ہے تیری
"انہیں لگتا ہے وہ اہم ہیں
جی نہیں صرف وہم ہے
پیتے تھے جس کے ساتھ وہ ساقی بڑا حسیِں تھا
عادی بنا کے ظالم نے، میخانہ بدل لیا
میں چاہتاتوکب کا منا لیتا تمہیں
تم روٹھے نہیں بدل گیے تھے
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پس مشکل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تجھ پہ مرا دل آ جائے
اے برق تجلی کوندھ ذرا کیا مجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مقابل آ جائے
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے
میری روح ترستی ہےتیری خوشبو کیلیے
تو کہیں اور جو مہکے تو تکلیف ہوتی ہے
آییٔ جوشب وہ روتا رہا
تکیۓ پہ آنسوں بہاتا رہا
آنکھوں میں لیۓ آس جاگتا رہا
ملنے کی چاہ میں سوچتا رہا
چلا گیا ہے وہ انسان نہ کرتٌو یاد
ملے جو خواب میں کرتٌوفریاد
ہنس بول اٌس سے اور کہہ اٌسے کر تٌو بھی یاد
مجطرب نہ گھوم تٌوانجان
مخاطب رہ تٌو بھی ہے یہی انجام
آغاز سے تٌو پروان چڑھا ہے
منکیر نکیر بھی کہہ اٌٹھے العمان
یہ فلک یہ لہب شبنم آفشانی
ہو دٌعا تیرے گھر کی نگہبانی
رحمت و برکت ہے اللہ کی مہربانی
اے انسان کیا یہی ہے تیری زندگانی
بہت چھالے تھے اس کے پیروں میں
کمبخت اصولوں پہ چلا ہو گا
فتور نیتوں میں ہوتا ہے
اور قصور لکیروں کا نکالتے ہیں
نہ کوئی رنگ ہوگا نہ کوئی تنگ ہوگا ۔
جس دن میرے سر پی کفن ہوگا
خاک پہ خاک ڈالو اس میں ملاؤ مجھے
میں ایک مذاق ہوں سب مل کر اڑاؤ مجھے
کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی
میں چراغ وہ بھی بجھا ہوا میری رات کیسے چمک گئی
مری داستاں کا عروج تھا تری نرم پلکوں کی چھاؤں میں
میرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تری آنکھ کیسے جھپک گئی
عادتیں ڈال کر اپنی توجہ کی
یکدم جو بدلتے ھیں ستم کرتے ھیں
" مجھے معاف کر میرے ہمسفر
نہیں ظلم اتنا کرینگے ہَم
تجھے درد ہے میری بات کا
نہیں بات تم سے کرینگے ہَم
جس کو آپ کے چپ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
اس کو آپ کے مر جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا
یہ میری آخری وصیت ہے
اسے میرا منہ نہ دکھایا جائے
پرندے بین کرتے ہیں جو زہریلی ہواؤں میں
وہ جگنو مار ڈالے ہیں جو اڑتے تھے فضاؤں میں
نشیمن توڑ کر آدم نے کچھ معصوم جانوں کا
چمن اپنا بنایا ہے سسکتی کچھ صداؤں میں
درندوں نے درندوں کو دیا جھٹکا جو وحشت کا
نظر آئے مقید وہ جو رہتے تھے گھپاؤں میں
مری کوئل مری قمری کہاں ہے فاختہ میری
کہاں ہیں رنگ موسم کے جو پھرتے تھے صباؤں میں
کہاں ہیں علم کے طالب کہاں ہیں دین کے عالم
یہ بونے کون ہیں اٹھ کر جو بیٹھے ہیں عباؤں میں
کہاں ہیں گیت نصرت کے کہاں ہیں راگ مہدی
کے وہ نغمہ گر کہاں بھٹکے جو رہتے تھے دعاؤں میں
جنہیں اشرافیہ کہتے ہو وہ تو سچ میں اشرف ہیں
جو غلطاں ہیں نمائش میں جو رہتے ہیں اناؤں میں
جو آتا ہے وہ کھاتا ہے کوئی کھا کر لگاتا ہے
گھرا ہے ملک میرا تو عجب وحشی بلاؤں میں
فکر غالب کی ترا عشق ہے مومن جیسا
داغ کا چرچا بھی دن رات بہت کرتے ہو
درد کے درد کی شدت سے نا مر جائے تُو
میر کا غم بھی لیے دل میں عجب پھر تے ہو
روگ تجھ کو بھی کوئی لگتا ہے آتش جیسا
کیسے شعروں میں بتا سوز جہاں بھرتے ہو
جرات و انشا بھی شامل ہیں تری شوخی میں
رنگ ناصر کا بھی لفظوں پہ بہت رکھتے ہو
تُو نے اقبال کو پرکھا ہے خودی میں اپنی
تم وہ شاہین ہو جو خود سے سدا لڑتے ہو
آج سارے لاڈ پورے کیے میں نے
اُس کا بیٹا ملا تھا سکول جاتے ہوئے
اوڑھ کر شال تری یادوں کی گھر جاتا ہوں
گھر نا جاؤں تو سرِ راہ بکھر جاتا ہوں
سرد موسم کے تھپیڑوں سے جو نخلِ گل پر
چوٹ پڑتی ہے تو کچھ اور سنور جاتا ہوں
حسن والوں کا تو دیتا ہوں ہمیشہ پہرہ
وادیِ عشق میں بےلوث اتر جاتا ہوں
مرنے والوں کو جلانے میں مزہ آتا ہے
جینے والوں پہ تو میں روز ہی مر جاتا ہوں
سوچ کو آگ دکھاتا ہوں ترے چہرے کی
آگ کو دل میں لگا کر میں نکھر جاتا ہوں
دن کو کہتا ہوں نہیں یاد نہیں کرنا اسے
شام کو اپنے ہی وعدے سے مکر جاتا ہوں
نظروں سے گِر گیا تو اُٹھایا نہیں گیا
مجھ سے وہ روٹھا شخص منایا نہیں گیا
اشکوں کو جس نے آنکھ کا زیور بنا دیا
آنکھوں کی چلمنوں سے ہٹایا نہیں گیا
ٹوٹا جو ایک بار تو حسرت ہوئی تمام
مجھ سے دوبارہ دل بھی لگایا نہیں گیا
مجھ کو مٹانے والے نے سب کچھ مٹا دیا
مجھ سےتو اس کا نام مِٹایا نہیں گیا
خوشیوں نے میری سوچ کو دیمک زدہ کیا
خوشیوں بھرا جو گھر تھا بسایا نہیں گیا
اس نے مجھے ہرانے کا جب عہد کر لیا
ہارا وہ شخص مجھ سے ہرایا نہیں گیا
دنیا میں جاکے میری عبادت کرو گے تم
ایسا تو ہم کو کچھ بھی سکھایا نہیں گیا
اس کی تمام باتوں کو مقدس دیا قرار
مجھ سے تو راز اپنا چھپایا نہیں گیا
تمہیں کیا پتہ مری سوچ کا مرے عشق کا مرے پیر کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی لیلیٰ، مجنوں یا ہیر کا
تمہیں کیا پتہ مرے زخم کا مرے دردِ دل کا یا ہجر کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی جوگی، سنت، فقیر کا
تمہیں کیا پتہ مری رات کا مرے صبح و شام کے روگ کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی آنسو، اشک یا نیر کا
تمہیں کیا پتہ مری جان کا مری زندگی کے جہان کا
جو تو جان لے تو نا نام لے کسی غنچہِ دل چیر کا
تمہیں کیا پتہ مری فکر کا مری فہمِ سخنِ کلام کا
جو تو جان لے تو نا نام لے کسی درد، نظیر یا میر کا