Friends Shayari - 2 Line Shayari
تاب نگاہ تھی تو نظارہ بھی دوست تھا...
اس چشم نرگسیں کا اشارہ بھی دوست تھا...
سن مرے دل کی ذرا آواز دوست....
اے مرے محسن مرے ہم راز دوست...
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا...
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے....
دیکھ لینا خُوب اودھم مچانا ہے
ہم نے برہم دوست کو منانا ہے
وہ جانتا ہی نہیں ہے کہ دوستی کیا ہے...
گزر گئی ہے جو مشکل سے زندگی کیا ہے....
جیتے جی مر گئے ہم وصل کی آ س مین....
پر کوئی نہین آ یا ا دھر جلو ہ دکھا نے کو.......
ہر وقت انتظار کرتا ہوں....
تم کو بے لوث پیار کرتا ہوں....
مت اذیت دو نہ نقصان میں آجاؤں کہیں....
فرط جذبات تری جان میں آ جاؤں کہیں....
کچھ اپنا حال سنا کچھ میرا حال سن.....
ے میرے دوست! میرے ہمراز...
خیال ہجر کے سوچے ہوئے تھے پیڑوں نے...
لباس زرد سے پہنے ہوئے تھے پیڑوں نے....
دوست-دوست نہ رہا...
وفا میں وفائی نہ رہی....
دوست کچھ اور بھی ہیں تیرے علاوہ مرے دوست...
کئی صحرا مرے ہمدم کئی دریا مرے دوست...
دل اس لئے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست..
جب یہ نہ ہو بغل میں ہے دشمن بجائے دوست
دوست جب ذی وقار ہوتا ہے.....
دوستی کا معیار ہوتا ہے.....
دوست خوش ہوتے ہیں جب دوست کا غم دیکھتے ہیں....
کیسی دنیا ہے الٰہی جسے ہم دیکھتے ہیں.....
تھا ایک میں جو شرط وفا توڑتا رہا......
حالانکہ با وفا تھے مرے یار سب کے سب....
--دیکھ لینا خُوب اودھم مچانا ہے
---ہم نے برہم دوست کو منانا ہے
---دوست-دوست نہ رہا
---وفا میں وفائی نہ رہی
دوست کچھ اور بھی ہیں تیرے علاوہ مرے دوست
...کئی صحرا مرے ہمدم کئی دریا مرے دوست
دل اس لئے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست
.جب یہ نہ ہو بغل میں ہے دشمن بجائے دوست
دوست جب ذی وقار ہوتا ہے
---دوستی کا معیار ہوتا ہے---
دوست خوش ہوتے ہیں جب دوست کا غم دیکھتے ہیں
---کیسی دنیا ہے الٰہی جسے ہم دیکھتے ہیں
...تھا ایک میں جو شرط وفا توڑتا رہا ...
...حالانکہ با وفا تھے مرے یار سب کے سب...
نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی
بس دو گلا یاد رکھیں
کمی کم تک ت نسلی دم تک نال رہندے نے
دولت سے جو دوست بنے وہ دوست ہی نہیں
سچ تو یہ ہے کہ دوست سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہےکے مٹایا نہ جائے گا
کون کہتا ہے کہ یاری برباد کرتی ہے
کوئی نبھانے والا ہو تو دنیا یاد کرتی ہے
یہاں قدم قدم پر نئے فنکار ملتے ہیں
لیکن قسمت والوں کو سچے یار ملتے ہیں
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
خدا کرے یہ دوستی اتنی گہری ہو
وقت تیرا آۓ اور موت میری ہو
اج میں خود سے ہو گیا مایوس
اج میرا ایک یار مر گیا
کسی سے روز مل کر باتیں کرنا دوستی نہیں
بلکہ کسی سے بچھڑ کر بھی یاد رکھنا دوستی ہے
یوں لگے دوست تیرا مجھ سے خفا ہونا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہونا
میری دوستی کا باغ چھوٹا سہی مگر پھول سارے گلاب رکھتا ہوں
کم ضرور ہیں مگر جو دوست رکھتا ہوں لاجواب رکھتا ہوں
جانے کس گلی میں چھوڑ ایا ہوں
جاگتی ہوئی راتیں ہنستے ہوئے دوست
جانے کس گلی میں چھوڑ ایا ہوں
جاگتی ہوئی راتیں ہنستے ہوئے دوست
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوست تھے ملاقات ہو گئی
دم نہیں کسی میں مٹا سکے ہماری دوستی
زنگ تلواروں کو لگتا ہے جگری یاروں کو نہیں