John Elia Shayari - 2 Line Shayari
....جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
....آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا
....میرے سب طنز بےاثر ہی رہے
....تم بہت دور جاچکی ہو کیا
....ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
....جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے
....شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
...لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
....تو مجھ کو مجھ سے روک رہا ہے کمال ہے
....منظر تو رک کے دیکھ لوں اپنے زوال کا
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
.....کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجے مرا
.....یاد کا سارا سر و ساماں جلاتے جائیے
سر میں تکمیل کا تھا اک سودا
ذات میں اپنی تھا ادھورا میں
کیا کہوں تم سے کتنا نادم ہوں
. . . .. تم سے مل کر ہوا نہ پورا میں
...پل قیامت کے سود خوار ہیں جون
.....یہ ابد کی کمائی کرتے ہیں
تو کبھی سوچنا بھی مت تو نے گنوا دیا مجھے
....مجھ کو مرے خیال کی موج بہا کے لے گئی
...وہی دیوار ہے اپنی وہی در ہے در پیش
..کیسے ٹھیروں میں یہاں پھر وہی گھر ہے درپیش
میں کیا بتاؤں کسی بے وفا کی مجبوری
.....کبھی خیال جو آیا تو آنکھ بھر آئ
....آ بسے ہیں تیرے دیار سے دور
....رہنے والے تو ہم وہیں کے ہیں
جز گماں اور تھا ہی کیا میرا
---فقط اک میرا نام تھا میرا
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا
---خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا
حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی
---شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
---بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
بے قراری سی بے قراری ہے
---وصل ہے اور فراق طاری ہے
آدمی وقت پر گیا ہوگا
---وقت پہلے گزر گیا ہوگا
کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو
----ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو
اب کسی سے مرا حساب نہیں
---میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
جاؤ قرار بے دلاں شام بخیر شب بخیر
---صحن ہوا دھواں دھواں شام بخیر شب بخیر
نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا
---غنیمت کہ میں اپنے باہر چھپا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
---داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
---میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
دید کی ایک آن میں کار دوام ہو گیا
---وہ بھی تمام ہو گیا میں بھی تمام ہو گیا
دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا
---پاؤں نہیں تھے درمیاں آج بڑا سفررہا
جانے کہاں گیا ہے وہ وہ جو ابھی یہاں تھا
وہ جو ابھی یہاں تھا وہ کون تھا کہاں تھا
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا
---زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا
ایک سایہ مرا مسیحا تھا
---کون جانے وہ کون تھا کیا تھا
اے وصل کچھ یہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
---اس جسم کی میں جاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا
ﻣﺮﻣﭩﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﯿﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ
---ﻭﺟﺪ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ
اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
---ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں
خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
---آج ہر شخص مر گیا ہوگا
مدتوں بعد گھر گیا تھا میں
---جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا
تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
---تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
تو دل شکن ہے پر یارو
---عقل سچی تھی عشق جھوٹا تھا
چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
---اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
---کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے