Sad Shayari
تجھے یہ سانحہ کھاتا رہے گا ....
تیری کھڑکی کُھلی ہے میں نہیں ہوں....
ہاۓ غمِ روزگار نے گُم سُم کیا مجھے ....
میں بھی تیری طرح کبھی حاضر جواب تھا....
دل تو کرتا ہے کہ میں خرید لوں تیری تنہائی...
مگر افسوس میرے پاس خود تنہائی کے سوا کچھ نہیں...
وہ بڑے شوق سے اعلان سنا کرتی تھی....
اسے یقین تھا ایک روز میں مر جاؤں گا...
ہائے وہ تیری قسمیں تیرے وعدے.....
ابلیس بھی دیکھ کے مسکراتا ہوگا....
میں تو اسے خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتی ..
ہاۓ مجھے نیند ہی نہیں آتی .......................
تُم ہمارے لئے سبھی کُچھ ہو.....
اور سبھی کُچھ کبھی نہیں ملتا.....
دیکھا تو وہ شخص میرے دشمنوں میں تھا...
نام جس کا شامل میری دھڑکنوں میں تھا ....
کاش کوئی تو ایسا ہو
جو اندر سے باہر جیسا ہو
تھک گئے ہو تو تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم مجھے واقعتا چھوڑ کے جا سکتے ہو
ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا
تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم سے باتوں میں کچھ اس درجہ مگن ہوتا ہوں
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ کے جا سکتے ہو
جانے والے سے سوالات نہیں ہوتے میاں
تم یہاں اپنا بدن چھوڑ کے جا سکتے ہو
جانا چاہو تو کسی وقت بھی خود سے باہر
اپنے اندر کی گھٹن چھوڑ کے جا سکتے ہو
یہ جو تمہیں لگتے ہیں بیمار سے ہم .....
بہت روۓ ہیں لپٹ کر درودیوار سے ہم ....
محبت کرنے والوں کو محبت راس نہ آئ اب تک...
یونہی نہیں یہ خود کو بے چارہ اور دلبر کو بے وفا کہا کرتے ہیں.....
اُن کو پاس وفا اگر ہوتا....
آنکھ میری بھی تر نہیں ہوتی...
وہ جن میں چمکتے تھے وفا کے موتی...
یقین جانو وہ آنکھیں بےوفا نکلی....
ہم نے محبتوں کے نشے میں اُسے خدا بنا ڈالا...
ہوش تب آیا جب اُس نے کہا کہ خدا کسی ایک کا نہیں ہوتا.....
اس ہی دیے نے جلایا میرے ہاتھوں کو
جس کو ہوا سے بچا رہے تھے ہم.........
نہ تھی جس کو میرے پیار کی قدر...
اتفاق سے اس ہی کو چاہ رہے تھے ہم....
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل...
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے...
کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا....
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے...
ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن....
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا....
آگ سے خاک ہو گیے ہم...
نہ جانے کہاں کہو گيے ہم...
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا.....
دھیرے سے سرکتی ہے رات اُس کے آنچل کی طرح
اُس کا چہرا نظر اتا ہے جھیل پیں کنول کی طرح
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے......
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا.....
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند....
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی.......
بے رِدا کیا اِس کو، اُس کا گھر جلا ڈالا کون آپ سے پُوچھے....
ان غریب لوگوں کا اے رشیدؔ ان داتا آپ ہی کہِیجے گا.....
شب کی تنہائی میں اب تو اکثر...
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے....
ڈوبنے کو ہے لوگو میرے پیار کی ناؤ، بوجھ کیسے ہلکا ہو.....
قرض ہے محبت کا، اور جس کا جتنا ہے آ کے مجھ سے لیجئے گا....
آپ ہیں دُکھی تو ہوں، مُجھ سے کیا بھلا مطلب آپ کو پتہ تو ہے....
آپ کے دُکھوں پہ ہی مُجھ سے پتھر دِل کا دِل کِس لیئے پسِیجے گا؟
تُجھ پہ کُھل جاتی میری روح کی تنہائی بھی.....
میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا
اب مجھے خواب بھی نہیں آتے....
جیسے آنکھوں نے خودکشی کی ہو....
شدتِ غم میں میرے دیدہِ تر نے محسن
پتھروں کو بھی کئی بار پگھلتا دیکھا.........
سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی....
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی....
عہد رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم تو میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں گا....
ایک چائے کو دو کپوں میں برابر بانٹ کر ....
اکثر کیا ہے فرض کے تنہا نہیں ہوں میں....
اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں....
رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں...
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے...
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا.....
خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں...
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے...