Allama Iqbal Shayari - 2 Line Shayari
----دوا کی تلاش میں رہا
----دعا کو چھوڑ کر
....فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
....رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
---کل اپنے مریدوں سے کہا پیر مغاں نے
---قیمت میں یہ معنی ہے در ناب سے دہ چند
---کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
---نفس ہندی مقام نغمہ تازی
---عطا اسلاف کا جذب دروں کر
---شریک زمرۂ لا یحزنوں،کر
---تری دنیا جہان مرغ و ماہی
---مری دنیا فغان صبح گاہی
---نگہ الجھی ہوئی رنگ و بو میں
---خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں
----وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
----مری بجلی مرا حاصل کہاں ہے
----مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
---جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں
---ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
---تری پرواز لولاکی نہیں ہے
---ترا تن روح سے نا آشنا ہے
---عجب کیا آہ تیری نارسا ہے
---ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
---تڑپ جا پیچ کھا کھا کر بدل جا
---ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
---ترا دم گرمئ محفل نہیں ہے
---خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں
---خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں
---جوانوں کو مری آہ سحر دے
---پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
---نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد
---ہوائے سیر مثال نسیم پیدا کر
---منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
---مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
--تري دعا سے قضا تو بدل نہيں سکتي
--مگر ہے اس سے يہ ممکن کہ تو بدل جائے
---فطرت کے مقاصد کي کرتا ہے نگہباني
---يا بندہ صحرائي يا مرد کہستاني
اس کي نفرت بھي عميق ، اس کي محبت بھي عميق
---قہر بھي اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفيق
---اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ
---املاک بھی اولاد بھی جا گیر بھی فتنہ
---لکھنا نہیں آتا تو میری جان پڑھا کر
---ہو جاے گی تیری مشکل آسان پڑھا کر
---لکھنا نہیں آتا تو میری جان پڑھا کر
---ہو جاے گی تیری مشکل آسان پڑھا کر
---ایک بُلبُل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک
-اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
---دلِ ہر ذرہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
---چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
---حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا
---کہاں اقبالؔ تُو نے آ بنایا آشیاں اپنا
--نوا اس باغ میں بُلبل کو ہے سامانِ رُسوائی
..اےباد صبا! کملی والےۖ سے جا کہيو پيغام مرا
قبضےسے امت بيچاري کے ديں بھي گيا، دنيا بھي گئي
---جفا جو عشق ميں ہوتي ہے وہ جفا ہي نہيں
---ستم نہ ہو تو محبت ميں کچھ مزا ہي نہيں
---خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ سرّ زندگانی ہے
---نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاودان ہوجا
آج وہ کشمير ہے محکوم و مجبور و فقير
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ايران صغير
--پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
--کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
---بصیرا کر لیا کرتا ہے یہ کوہو بیا باں میں
--کہ شاہیں کے لئے ہے موت کار آشیاں بندی
ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
---غریب شہر ہوں میں سن تو لے مری فریاد
---کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد
---اختر شام کي آتي ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتي ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کي رات
يہ فيضان نظر تھا يا کہ مکتب کي کرامت تھي
سکھائے کس نے اسمعيل کو آداب فرزندي
کون رکھے گا ہمیں یاد اس دور خود غرضی میں
---حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کو خدا یاد نہیں
--- تو رہ نورد شوق ہے، منزل نہ کر قبول
---لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
---گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان