Allama Iqbal Shayari - 2 Line Shayari
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
.....وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری
.....نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
.....اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
.....رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہے کس کی یہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے
.....حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد
---دریا میں موتی ، اے موج بے باک
---ساحل کی سوغات ! خاروخس و خاک
___شاعر بھی ہیں پیدا ، علما بھی ، حکما بھی
____خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
---شاعر بھی ہیں پیدا ، علما بھی ، حکما بھی
---خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
---عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
---ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار
---اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
---ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
---تو اے اسیر مکاں لا مکاں سے دور نہیں
---وہ جلوہ گاہ ترے خاکداں سے دور نہیں
زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مري خموشي نہيں ہے ، گويا مزار ہے حرف آرزو کا
---نے مہرہ باقي ، نے مہرہ بازي
---جيتا ہے رومي ، ہارا ہے رازي
---مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے
---خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے
---دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم
---اہل سجادہ ہیں یا اہل سیاست ہیں امام
---زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر
---خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر
---عجب واعظ کي دينداري ہے يا رب
---عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
---مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
---پلا کے مجھ کو مےلاالٰہ الاہو
---تجھے ياد کيا نہيں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
---وہ ادب گہ محبت ، وہ نگہ کا تازيانہ
---دل مردہ دل نہيں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ
---کہ يہي ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
يوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
---اک ذرا افسردگي تيرے تماشائوں ميں تھي
---پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائي کر
---چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائي کر
---نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور
----نہ میرا فکر ہے پیمانہ ثواب و عذاب
---نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور
---نہ میرا فکر ہے پیمانہ ثواب و عذاب
---فرما رہے تھے شیخ طریقِ عمل پہ وعظ
---کُفّار ہند کے ہیں تجارت میں سخت کوش
---پھر باد بہار آئي ، اقبال غزل خواں ہو
---غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو
---تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
---گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم
---ملے گا منزل مقصود کا اسي کو سراغ
اندھيري شب ميں ہے چيتے کي آنکھ جس کا چراغ
---تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی
---آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی
---رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی
---فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
---کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
---کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری
---مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی
---دیا ہے میں نے انہیں ذوق آتش آشامی
---نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
---کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی
---کيا کہوں اپنے چمن سے ميں جدا کيونکر ہوا
---اور اسير حلقہ دام ہوا کيونکر ہوا
---لائوں وہ تنکے کہيں سے آشيانے کے ليے
-بجلياں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے ليے
---کي حق سے فرشتوں نے اقبال کي غمازي
---گستاخ ہے ، کرتا ہے فطرت کي حنا بندي
,کہوں کيا آرزوئے بے دلي مجھ کو کہاں تک ہے
مرے بازار کي رونق ہي سودائے زياں تک ہے
الہي عقل خجستہ پے کو ذرا سي ديوانگی سکھا
دے
اسے ہے سودائے بخيہ کاري ، مجھے سر پيرہن نہيں ہے
---مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہيں
---يہي نماز ادا صبح و شام کرتے ہيں
---جو بے نماز کبھي پڑھتے ہيں نماز اقبال
---بلا کے دير سے مجھ کو امام کرتے ہيں