Allama Iqbal Shayari - 2 Line Shayari
لکھی ہے جس فلک پہ تقدیر ء نؤ ھماری
----آؤ نہ گھر بسائیں اسی آسماں پہ یارو
---ہم پہ ہے وبال
---بھول گئے تعلیم تیری
---بندگی کے عوض فردوس ملے
---یہ بات مجھے منظور نہیں
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
---تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
---قافلہِ عشق و وفا کا سالار ہے اقبال
---کتابِ خودی کا انوکھا کردار ہے اقبال
--پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
---کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
---تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر
---مصر و حجاز سے گزر،پارس و شام سے گزر
---وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
---یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائں یہود
---متاع بے بہا ہے سوزودرد و آرزو مندی
---مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
---نو نومبر کو قدم رکھا تھا ارضپاک پر
---نام تھا اقبال شھرت چھا گی افلاک پر
---ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
---بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
---جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
...خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالات کے بدلنے کا
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
---حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
---لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
---زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!
---دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
---نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
---چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
---نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
---چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
---مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
---فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
---بڑی جناب تری فیض عام ہے تیرا
---آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
---اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
---قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
---قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
---سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
---تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
----ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
---ذرہ ذرہ دہر کا زندانیٔ تقدیر ہے
---پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے
---جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
---لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
--زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
...آج کیا ہے، فقط اک مسئلہء علم کلام
---میں بندہ ناداں ہوں، مگر شکر ہے تیرا
---رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند
---حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
---وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
---یہ آفتاب کیا ، یہ سپہر بریں ہے کیا
---سمجھ نہیں تسلسل شام و سحر کو میں
---سلسلہ روز و شب ، نقش گر حادثات
---سلسلہ روز و شب ، اصل حیات و ممات
---اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
---معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا
---وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست
---مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں
---اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز
-سجدہ کرتی ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کی رات
چل بسا داغ آہ! میت اس کی زیب دوش ہے
---آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت
والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
----یہ آیہ نو جیل سے نازل ہوئی مجھ پر
----گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنڑ سب بلوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے
---یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
---ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
...سجدوں کے بدلے فردوس مجھے منظور نہیں
بے لوث میں عبادت کرتا ھوں بندہ ھوں تیرا؛ مزدور نہیں
ہر مشرق کا چڑھتا سورج مجھے یہ درس دیتا ہے
....کہ مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے