Meer Taqi Meer Shayari - 2 Line Shayari
یوں اٹھے اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
قصد کر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
عشق انکھوں میں کم نہیں اتا
لو ہو اتا ہے جب نہیں اتا
جور کیا کیا جفائیں کیا کیا ہیں
عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ہم کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جما تو دیوان کیا
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
گل ہو مہتاب ہو ائینہ ہو خورشید ہو میر
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دیوانے
دکھ تو دل کے جان سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
جبکہ پہلو سے یار اٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے
وہ شوخ دشمن جاں اے دل تو اس کا خواہاں
کرتا ہے کوئی ظلم ایسی بلا کی خواہش
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
وہ ائے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
کیا جانیے اے گوہر مقصد تو کہاں ہے
ہم خاک میں بھی مل گئے لیکن تو نہ ملا
بلبل غزل سرائی اگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا
عاشقی میں میر جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
اہ کے تیں دل خیران و خفا کو سونپا
میں نے یہ غنچہء تصویر صبا کو سونپا
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نیمو اس کا خوب لال کیا
کاسہ چشم لے کے جوں نرگھس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
یہ جو مہلت جسے کہے ہیں
عمر دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دم کے جانے کا نہایت ہی غم رہا
وہ جو شامل تھا میری دعاؤں میں
بن مانگے کسی اور کو مل گیا
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
یو پکارے ہیں مجھے کوچےءجاناں والے
ادھر آبے ابے او چاک گریباں والے
مجھے کام رونے سے اکثر ہے نا صح
تو کب تک میرے منہ کو دھوتا رہے گا
عشق ایک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
پیمانہ کہے ہے کوئی میخانہ کہے ہے
دنیا تیری انکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
اگے اگے دیکھ ہوتا ہے کیا
میر ان کی نیم باز انکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو با وفا ہوتا
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر صاحب تم فرشتہ ہو تو ہو
ادمی ہونا تو مشکل ہے میاں
ہمارے اگے تیرا جب کسونےنام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام, تھام لیا