Meer Taqi Meer Shayari - 2 Line Shayari
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر.....
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا....
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ....
آورگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا....
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا.....
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا.....
اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات....
اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات....
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے....
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک می..
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا....
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی....
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا....
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے....
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو.....
بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا....
بہت کچھ کہا ہے کرو میرؔ بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس....
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے.....
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں.....
تجھ کو مسجد ہے مجھ کو مے خانہ
واعظا اپنی اپنی قسمت ہے....
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب ....
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا....
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں....
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے ....
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے....
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم ....
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے....
چاہ کا دعویٰ سب کرتے ہیں مانیں کیوں کر بے آثار ...
اشک کی سرخی منہ کی زردی عشق کی کچھ تو علامت ہو
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا...
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے ....
درد بے اختیار اٹھتا ہے....
دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں
سیلی لگی صبا کی تو منہ لال ہو گیا......
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا...
دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا...
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے ...
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے....
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے ...
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے....
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے ....
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر...
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ.....
زندگی کچھ اور شے ہے،علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے ،علم ہے سوز دماغ....
تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر....
مصر و حجاز سے گزر،پارس و شام سے گزر....
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود...
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائں یہو...
متاع بے بہا ہے سوزودرد و آرزو مند.....
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی.....
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے ....
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر....