Meer Taqi Meer Shayari - 2 Line Shayari
نو نومبر کو قدم رکھا تھا ارضپاک پر...
نام تھا اقبال شھرت چھا گی افلاک پر
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا...
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی.....
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی..
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالات کے بدلنے کا
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر.....
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ ...
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا....
آورگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں ...
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا...
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا....
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا....
اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے....
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر.....
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا......
اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو ...
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات...
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے .....
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے....
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے ...
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک می..
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن .....
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی....
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت ...
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر....
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا....
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے....
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن ....
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو ...
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو....
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی.....
بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کےتئیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا....
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا...........
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب ....
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں....
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں.....
جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میرؔ زبس ....
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے....
کہیں جو پوچھے کوئی ہم سے, میر
جہاں میں تم ائے تھے کیا کر چلے
کہیں جو پوچھے کوئی ہم سے, میر
جہاں میں تم ائے تھے کیا کر چلے
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلوں یہاں کے بہت یاد رہوں
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ ازار جائے گا
ہستی اپنے حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
شکوہ ابلہ ابھی سے میر
ہے پیارے ہنوز دلی دور
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا کام محبت سے اس ارام طلب کو
بدنامی کیا عشق کی کہیے رسوائی سی رسوائی ہے
صحرا صحرا وحشت بھی تھی دنیا دنیا تہمت تھی
میر بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ
آگ تھے ابتدا عشق میں ہم
ہو گئے خاک انتہا یہ ہے